مہر خبررساں ایجنسی نے الجزیرہ کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سوڈان میں فوج اور پیراملٹری فورسز کے درمیان جنگ دسوٰیں دن میں داخل ہوگئی ہے۔ اب تک اس خونریز جنگ میں 400 سے زائد ہلاک اور چار ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔ جنگ طویل ہونے سے سوڈان کو درپیش مسائل میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اس موقع پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس خونی تصادم کا نتیجہ کیا ہوگا؟
ذیل میں اس سوال کا جواب دیا جارہا ہے۔
سوڈان کیسے بحران کا شکار ہوا؟
سوڈان کے موجودہ حکمران اور فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان اور ان کے معاون پیراملٹری فورسز کے سربراہ محمد حمدان دقلو المعروف حمیدتی کے درمیان رقابت نے سوڈان کو بحران پیدا کردیا۔ دونوں رہنماوں نے ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش میں ملک کو خانہ جنگی کی جانب دھکیل دیا۔ اگرچہ فریقین سیز فائر اور مذاکرات کی حمایت کا اعلان کرتے ہیں لیکن عملی طور پر کوئی بھی اس اقدام کے لئے آمادہ نہیں ہے۔
سوڈانی عوام اور سیاسی قوتوں کا انجام کیا ہوگا؟
سوڈان کے عوام فوجی جنرلوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے پریشانی کا سامنا کررہے ہیں۔ جنگ کے آغاز میں دارالحکومت کے عوام اپنے گھروں میں مخفی ہوگئے تھے لیکن اب بجلی، پانی اور انٹرنیٹ قطع ہونے کی وجہ سے گھروں سے نکل کر فرار ہورہے ہیں۔ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کو فضائی حملوں اور بھاری ہتھیاروں سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ سوڈانی ڈاکٹروں کی تنظیم کے مطابق پچاس لاکھ آبادی والے دارالحکومت کے 74 میں سے 60 ہسپتال بدامنی اور طبی سہولیات کے فقدان کے باعث عملی طور پر ناکارہ ہوچکے ہیں۔
عالمی اور علاقائی طاقتوں کا کردار
جنگ کے آغاز سے ہی عالمی اور علاقائی سطح پر جنگ بندی کی اپیلیں کی جارہی تھیں جس میں اب کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتھونی گوتریش نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ سوڈان میں کشیدگی فوری طور ختم کیا جائے اور ملک کو مزید اتفراتفری سے بچانے کے لئے جلد جنگ بندی کی جائے۔ گذشتہ بدھ کو خرطوم میں امریکہ، ناروے، اور یورپی یونین سمیت 15 مغربی سفارت خانوں کی جانب سے تحریری بیان جاری کیا گیا جس میں فریقین سے جلد اور بغیر کسی شرط کے کشیدگی کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ لیکن اگلے دن ہی ان سفارتخانوں میں سے اکثریت سفارت خانے بند کرکے اپنے سفارتکاروں اور ملازمین کو دوسری جگہ منتقل کرنے پر مجبور ہوگئی۔
البرہان اور حمیدتی دونوں عالمی اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ حالیہ سالوں کے دوران مختلف ممالک ان دونوں رہنماوں میں سے کسی ایک سے سیاسی، سفارتی اور اقتصادی روابط برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جنرل البرہان مصری سربراہ مملکت جنرل عبدالفتاح السیسی کے کلاس فیلو ہیں۔ دونوں نے مصر کی فوجی اکیڈمی میں تعلیم حاصل کی ہے۔ جبکہ جنرل حمیدتی نے سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ مل کر یمن پر لشکرکشی کی ہے اور اسی طرح لیبیا میں عرب امارات کا آلہ کار بن کر کام کیا ہے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ روسی فوج کے ساتھ مل کر سوڈان میں سونے کی کانوں کی حفاظت کی ہے۔
اکثر ممالک دونوں رہنماؤں میں سے کسی ایک ساتھ تعلقات رکھتے ہیں لیکن عملی طور پر اب تک کسی نے بھی کھل کر ساتھ نہیں دیا ہے نتیجتا سوڈان میں جاری جنگ کو پراکسی وار بھی نہیں کہا جاسکتا۔ دوسری طرف عالمی کھلاڑیوں میں سے بھی کسی نے اب تک آگے بڑھ کر اس تصادم کو روکنے کی بھی قابل قدر کوشش نہیں کی ہے۔
جنگ کے ممکنہ نتائج
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جنرل البرہان اور جنرل حمیدتی دونوں طاقتور فورسز کی قیادت کرتے ہیں اور اب تک دونوں نے سخت اور پیچیدہ جنگ لڑی ہے اور کوئی بھی جنگ بندی پر عملی طور پر تیار بھی نہیں ہے۔ البرہان نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ پیراملٹری فورسز کو شکست دینے تک جنگ جاری رہے گی اور دوسری طرف جنرل حمیدتی نے فوج کو شکست دینے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ فریقین کے بیانات اور عملی اقدامات سے مبصرین اس خدشے کا اظہار کررہے ہیں کہ سوڈان کی جنگ سالوں تک جاری رہ سکتی ہے۔
ان حالات میں بیرونی دباؤ ہی فریقین کو مذاکرات اور جنگ بندی پر راضی کرسکتا ہے مخصوصا اس وجہ سے کہ سوڈان خود پر عائد اقتصادی پابندیوں اور عالمی امداد کے حصول کے لئے مغربی ممالک کی طرف محتاج ہے۔ اسی طرح عالمی برادری اور سعودی عرب، مصر، عرب امارات جیسے علاقائی ممالک کے درمیان سوڈان میں جنگ بندی اور فریقین کو مذاکرات پر تیار کرنے پر اتفاق رائے ہوجائے تو دونوں گروہوں کو جھڑپیں ختم کرنے پر راضی کیا جاسکتا ہے۔ افریقن یونین، عرب لیگ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کے درمیان طے پانے والی میکانزم کے تحت اسی راہ حل پر توجہ مرکوز کی جاسکتی ہے۔ البتہ اب تک فریقین کو جنگ بندی پر راضی کرنے کا کوئی بھی طریقہ کارامد ثابت نہیں ہوا ہے۔
مصری تجزیہ نگار محمود سالم نے المانیٹر ویب سائٹ پر ایک تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ ابھی تک سوڈان کی حالت بہت نازک ہے اور شام کی طرح اس ملک میں بھی وسیع اور طویل خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔
بہرحال موجودہ حالات میں انتقال اقتدار اور جمہوری حکومت کے قیام کے لئے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ "ہنوز دہلی دور است" یہی امر سوڈانی عوام کے لئے پریشان کن ہے۔
آپ کا تبصرہ